Monday 18 June 2012

Detail in English

Ajwa dates are the most favorite food of Prophet Mohammad (S.A.W). These are the unique kind of dates which are from Madina Sharif, the most beneficial and wholesome for the body and mental health. It has been said in Hadith that “Ajwa are the dates of the Heaven. Medical science is agreed to the benefits of Ajwa and suggests it as cure for harmful diseases. Here are some Hadiths about benefits of Ajwa dates.
Narrated by Saud; the Messenger (Sallallaahu Alayhi Wasallam) said, “If Somebody takes seven ‘ajwa dates in the morning, neither magic nor poison will hurt him that day.” [Sahih Bukhari, Book #71, Hadith #664 (also 663, 672)]
The Messenger (Sallallaahu Álayhi Wasallam) said, “Ajwa dates are from paradise.” [Tirmidhi (2068) he said hasan Saheeh and it was authenticated by Shaikh al-Albaani]
Referring to eating seven Ajwa dates, the Messenger (Sallallaahu Álayhi Wasallam) said, “He will not be harmed by anything until he reaches the evening.” [Sahih Muslim (2047)]
‘A’isha reported Allah’s Messenger (May peace be upon him) as saying: “The ‘ajwa’ dates of ‘Aliya’ contain heating effects and these are antidote in the early morning.” [Sahih Muslim, Book #023, Hadith #5083]

These dates cost around 70-100 Saudi Riyals per KiloGram.
There are also “imitations” or some sold an inferior quality dates and “conned” the customers as “AJWA dates” To know whether its AJWA, look closely at the dates. There are very fine white lines on the dates.
Madinah Dates Keep Away Harm
Amir b. Sa’d b. Abu Waqqas, on the authority of his father, reported Allah’s Messenger (Sallallaahu Alayhi Wasallam) having said: “He who ate seven dates (of the land situated) between these two lava plains in the morning, no poison will harm him until it is evening.” (Sahih Muslim, Book #023, Hadith #5080)
Dates In One’s Home
‘A’isha reported Allah’s Messenger (Sallallaahu Alayhi Wasallam) as saying: “’A'isha a family which has no dates (in their house) its members will be hungry; (or) ‘A’isha the family which has no dates its members may be hungry. He said this twice or thrice.” (Sahih Muslim, Book #023, Hadith #5079)

Prophet Muhammad peace be upon him said 
ومَن تحسَّى سمّاً فقتل نفسه فسمُّه في يده يتحساه في نار جهنم خالداً مخلداً فيها أبداً

whoever takes poison and kills himself, his poison will be in his hand and he will be sipping it in the Fire of Hell for ever and ever. [Narrated by al-Bukhaari, 5442; Muslim, 109.]

It was narrated from Thaabit ibn al-Dahhaak (may Allaah be pleased with him) that the Messenger of Allaah (peace and blessings of Allaah be upon him) said: "Whoever kills himself with something in this world will be punished with it on the Day of Resurrection." [Narrated by al-Bukhaari, 5700; Muslim, 110.]
Comment: So clearly Eating poison is killing yourself and it is prohibited, the hadith in discussion means if someone eat dates in the morning with strong certainty and full submission, then if some scorpion or any other poisoning animal bite him by any chance then Insha'Allah no poison will effect him but he should not think that dates will save him but it is Allah who saves
Ibn Qayyim in his Tibb al-Nabawi writes: "For the people of al-Medina, dried dates are their staple like wheat is to other people. In addition, dried dates from the area of al-Aliyah in al-Medina are one of the best kinds of dates ... Dates are a type of fruit that is also used for its nutritional and medicinal value, being favorable for most bodies and for their role in strengthening the natural heat. Moreover, dates do not produce harmful wastes or excrement like other types of food and fruits. Rather, dates preserve the body wastes from being spoiled and from rotting, especially for those who are used to eating dried dates." (Healing with the Medicine of the Prophet, Translated by Abd el-Qader bin Abd el-Azeez, Dar al-Ghadd al-Gadeed, al-Mansoura (Egypt), 2003 p.121)
Here are a couple of more narrations,
Narrated Sa'd: I suffered from an illness. The Messenger of Allah –may Allah bless him- came to pay a visit to me. He put his hands on my chest and I felt its coolness at my heart. He said: “You are a man suffering from heart sickness. Go to al-Harith ibn Kaladah, brother of Thaqif. He is a man who gives medical treatment. He should take seven ajwah dates of Medina and grind them with their kernels, and then put them into your mouth.” (Sunan Abu DawudHadith 3875)
It is reported, though through a weak chain, that ‘Ali –May Allah be pleased with him- said:“And whoever eats seven ‘ajwa dates every day it kills every disease in the stomach.” (Kanzul Ummal, Hadith 28472) 

Friday 15 June 2012


عجوہ کھجور کی فضیلت







عجوہ کھجور حضور اکو محبوب ترین کھجوروں میں تھی‘ یہ مدینہ منورہ زادہا اللہ شرفاً وتعظیماً کی عمدہ ترین‘ انتہائی لذیذ‘ مفید سے مفیدتر‘ قیمتاً بہت ہی عالی اور اعلیٰ قسم کی کھجور ہے۔
حدیث میں اس کے متعلق آیا ہے کہ یہ جنت کی کھجور ہے‘ اس میں دوران سر سے‘ قلب مرض سے شفا کا ہونا وارد ہے‘ صحیح حدیث میں آیا ہے کہ: ”نہار منہ اس کے سات عدد کھانے میں زہر اور سحر سے حفاظت ہوگی۔“
علماء نے لکھا ہے کہ اس کھجور کا درخت آپ انے اپنے دست بابرکت سے لگایا‘ اس مضمون میں اسی بابرکت کھجور کے متعلق چند باتیں جمع کی گئیں ہیں‘ حق تعالیٰ اس حقیر کاوش کو مفید ونافع بنائے اور راقم کے لئے ذریعہ نجات بنائے۔ آمین۔
عجوہ کھجور کی تاثیر سحر وزہر سے حفاظت
”عن سعد قال: سمعت رسول اللّٰہ ا یقول: من تصبح بسبع تمرات عجوة لم یضرہ ذلک الیوم سم ولاسحر“۔ (۱)
ترجمہ:․․․․”حضرت سعدبن ابی وقاص (۲) کہتے ہیں کہ میں نے نبی کریم ا کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ جو شخص صبح کے وقت کوئی اور چیز کھانے سے پہلے سات عجوہ کھجوریں کھائے گا‘ اس کو اس دن کوئی زہر اور جادو نقصان نہیں پہنچائے گا“۔
تشریح
عجوة مدینہ منورہ کی کھجوروں میں سے ایک قسم ہے‘جو صیحانی(۳) سے بڑی اور مائل بہ سیاہی ہوتی ہے‘ یہ قسم مدینہ منورہ کی کھجوروں میں سب سے عمدہ اور اعلیٰ ہے۔
”زہر“ سے مراد وہی زہر ہے جو مشہور ہے (یعنی وہ چیز جس کے کھانے سے آدمی مرجاتا ہے) یا سانپ ‘ بچھو اور ان جیسے دوسرے زہریلے جانوروں کا زہر بھی مراد ہوسکتا ہے۔
مذکورہ خاصیت (یعنی دافع سحر وزہر ہونا) اس کھجور میں حق تعالیٰ کی طرف سے پیداکی گئی ہے‘ جیساکہ قدرت نے از قسم نباتات دوسری چیزوں (جڑی بوٹیوں وغیرہ) میں مختلف اقسام کی خاصیتیں رکھی ہیں‘ یہ بات آنحضرت اکو بذریعہٴ وحی معلوم ہوئی ہوگی کہ (عجوہ) کھجور میں یہ خاصیت ہے‘ یا یہ کہ آنحضرت ا کی دعا کی برکت سے اس کھجور میں یہ خاصیت ہے (۴) عجوہ کا درخت آنحضرت ا نے اپنے دست مبارک سے لگایا۔
علامہ ابن اثیری کہتے ہیں کہ عجوہ صیمانی سے بڑی ہے‘ اس کا درخت خود نبی کریم ا نے اپنے دست اطہر سے لگایا تھا:
”ضرب من التمر اکبر من الصیمانی وہو مما غرسہ المصطفیا بیدہ فی المدینة“ (۵)
سات کے عدد میں حکمت
جہاں تک سات کے عدد کی تخصیص کا سوال ہے تو اس کی وجہ شارع کے علاوہ کسی کو معلوم نہیں‘ بلکہ اس کا علم توقیفی ہے یعنی آنحضرت ا سے سماعت پر موقوف ہے کہ آپ ا نے سات ہی کا عدد فرمایا اور سننے والوں نے اسی کو نقل کیا‘ نہ تو آنحضرت ا نے اس کی تخصیص کی وجہ بیان فرمائی اور نہ سننے والوں نے دریافت کیا‘ جیساکہ رکعات وغیرہ کے اعداد کا مسئلہ ہے۔ (۶)
حافظ ابن حجر فرماتے ہیں کہ سات ہی کا عدد بہتر اور مناسب ہے‘ اس کی حکمت اور حقیقت اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتے ہیں (۷)
امام نووی فرماتے ہیں: حضور ا کا کھجور کی تمام اقسام میں سے عجوہ کو خصوصیت دینا اور پھر سات کے عدد کے ساتھ مخصوص فرمانا یہ امور اسرار سے ہیں جن کی حکمت ہم تو نہیں سمجھ سکتے‘ لیکن جو کچھ نبی کریم ا نے ارشاد فرمایا ہے، اس پر ایمان رکھنا واجب ہے اور یہی اعتقاد رکھنا چاہئے کہ عجوہ ہی کو برتری وفضیلت ہے اور اس میں بھی ضرور کوئی حکمت ہے۔ (۸)
سات کے عدد میں عجیب نقطہ
بعض اہل علم نے نماز میں سات فرائض کی حکمت یہ لکھی ہے کہ انسان کا جسم سات چیزوں سے بنا ہے ۱:․․․ مغز یعنی بھیجا‘ ۲:․․․رگیں‘۳:․․․گوشت‘ ۴:․․․پٹھے‘ ۵:․․․ہڈیاں‘ ۶:․․․خون‘ ۷:․․․جلد یعنی کھال‘ یہ سب سات ہوئے ،ان ساتوں اجزاء کے شکریہ میں سات فرض رکھے گئے‘ ہرایک چیز کا شکریہ ایک فرض۔(۹)
کیا بعید ہے کہ اللہ کے نبی ا نے سات کھجور کھانے کی تاثیر یہ بیان فرمائی کہ انسان کا جسم سات اشیاء سے بنا ہے‘ ہر شئی کے بدلہ میں ایک کھجور ۔
سات عدد کے متعلق علامہ ابن قیم کی تحریر
حافظ ابن قیم جوزی سات کے عدد کی حکمت بیان فرماتے ہوئے رقمطراز ہیں:
”رہ گئی سات عدد کی بات تو اس کو حساب اور شریعت دونوں میں خاص مقام حاصل ہے‘ خدا تعالیٰ نے سات آسمان بنائے‘ سات زمین پیدا کیں‘ ہفتے کے سات دن مقرر فرمائے‘ انسان کی اپنی تخلیق سات مرحلوں میں ہوئی‘ خدا تعالیٰ نے اپنے گھر کا طواف اپنے بندوں کے ذمہ سات چکروں سے شروع کیا‘ سعی بین الصفا والمروة کے چکر بھی سات مرتبہ شروع کئے‘ عیدین کی تکبیریں سات ہیں‘ سات برس کی عمر میں بچوں کو نماز پڑھنے کی ترغیب دلانے کا حکم ہوا ‘ حدیث میں ہے:
”مروہم بالصلاة وہم سبع سنین “۔
یعنی اپنے بچوں کو سات سال کی عمر میں نماز پڑھنے کا حکم دو۔
پیغمبر خدا ا نے اپنے مرض میں سات مشکیزہ پانی سے غسل کرانے کے لئے فرمایا: خدانے قوم عاد پر طوفان سات رات تک جاری رکھا۔
رسول اللہ ا نے دعا فرمائی کہ: خدائے پاک! میری مدد فرما ایسے سات سے جیسے سات حضرت یوسف علیہ السلام کو عطا فرمائے تھے۔
خداکی طرف سے صدقہ کا ثواب جو صدقہ دینے والوں کو ملے گا سات بالیوں سے (جو ایک دانہ سے اگتی ہیں جن میں سو‘سو دانے ہوں) تشبیہ دی‘ اور وہ خواب جو حضرت یوسف علیہ السلام نے دیکھا اس میں سات بالیاں ہی نظر آئی تھیں اور جن سالوں میں کاشت نہایت عمدہ ہوئی‘ وہ سات سال تھے اور صدقہ کا اجر سات سوگنا تک اور اس سے بھی زائد۔ سات کے ضرب کے ساتھ ملے گا۔
اس سے اندازہ ہوا کہ سات کے عدد میں ایسی خاصیت ہے جو دوسرے عدد کو حاصل نہیں‘ اس میں عدد کی ساری خصوصیات مجتمع ہیں‘ اور اطباء کو سات کے عدد سے خاص ربط ہے۔ خصوصیت سے ایام بحران میں بقراط کا مقولہ ہے کہ دنیا کی ہر چیز سات اجزاء پر مشتمل ہے ۔ ستارے سات‘ ایام سات‘ بچہ کی طفولیت کی عمر سات‘ پھر صبی چودہ سال‘ پھر مراہق‘ پھر جو ان‘ پھر کہو لت‘ پھر شیخ پھر ہرم اور خدائے پاک ہی کو اس عدد کے مقرر کرنے کی حکمت معلوم ہے ‘اس کا وہی مطلب ہے جو ہم نے سمجھایا ،اس کے علاوہ کوئی معنی ہے اور اس عدد کا نفع خاص اس چھوہارے کے سلسلے میں جو اس ارض مقدس کا ہو اور اس علاقے کا جو جادو اور زہر سے دفاع کرتا ہے‘ اس کے اثرات اس کے کھانے کے بعد روک دیئے جاتے ہیں‘ کھجور کے اس خواص کو اگر بقراط وجالینوس وغیرہ اطباء بیان کرتے تو اطباء کی جماعت آنکھ بند کرکے تسلیم کر لیتی اور اس پر اس طرح یقین کرتی جیسے نکلتے آفتاب پر یقین رکھتی ہے‘ حالانکہ یہ اطباء خواہ کسی درجہ کے عاقل ہوں وہ جو کچھ بھی کہتے ہیں وہ ان کی رسا عقل اور اٹکل یا گمان ہوتا ہے۔ ہمارا پیغمبر جس کی ہر بات یقینی اور قطعی اور کھلی دلیل وحی الٰہی ہو‘ اس کا قبول وتسلیم کرنا تو بہرحال ان اطباء سے زیادہ حسن قبولیت کا مستحق ہے‘ نہ کہ اعتراض کا مقام ہے اور زہر کی دافع دوائیں کبھی بالکیفیت اثر انداز ہوتی ہیں‘ بعض بالخاصیة اثر انداز ہوتی ہیں ۔(۱۰)
عجوہ میں شفاء ہے
”عن عائشة  ان رسول اللّٰہ اقال ان فی العجوة شفاء وانہا تریاق اول البکرة“۔ (۱۱)
ترجمہ:․․․․”حضرت عائشہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ا نے فرمایا” عالیہ کی عجوہ کھجوروں میں شفاء ہے اور وہ زہر وغیرہ کے لئے تریاق کی خاصیت رکھتی ہیں‘ جب کہ اس کو دن کے ابتدائی حصہ میں (یعنی نہار منہ کھایا جائے)۔“
تشریح:
مدینہ منورہ کے اطراف قبا کی جانب جو علاقہ بلندی پر واقع ہے، وہ عالیہ یا عوالی کہلاتا ہے، اسی مناسبت سے ان اطراف میں جتنے گاؤں اور دیہات ہیں‘ ان سب کو عالیہ یا عوالی کہتے ہیں‘ اسی سمت میں نجد کا علاقہ ہے‘ اور اس کے مقابل سمت میں جو علاقہ ہے وہ نشیبی ہے اور اس کو سافلہ کہا جاتا ہے، اس سمت میں ”تہامہ“ کا علاقہ ہے‘ اس زمانہ میں عالیہ یا عوالی کا سب سے نزدیک والا گاؤں مدینہ سے تین یا چار میل اور سب سے دور والا گاؤں سات یا آٹھ میل کے فاصلہ پر واقع تھا
”عالیہ کی عجوہ میں شفا ہے“ کا مطلب یا تو یہ ہے کہ دوسری جگہوں کی عجوہ کھجوروں کی بہ نسبت عالیہ کی عجوہ کھجوروں میں زیادہ شفا ہے‘ یا اس سے حدیث سابق کے مطلق مفہوم کی تقیید مراد ہے یعنی پچھلی حدیث میں مطلق عجوہ کھجور کی جو تاثیر وخاصیت بیان کی گئی ہے‘ اس کو اس حدیث کے ذریعہ واضح فرمادیا گیا ہے کہ مذکورہ تاثیر وخاصیت عالیہ کی عجوہ کھجوروں میں ہوتی ہے۔
تریاق ”ت“ کے پیش اور زبر دونوں کے ساتھ آتاہے‘ وہ مشہور دوا ہے جو دافع زہر وغیرہ ہوتی ہے۔ (۱۲)
عجوہ میں دوران سر سے شفا
ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ  عجوہ کھجوروں کو دوران سر (جو بہت مشہور مرض ہے) کے لئے استعمال کرنے کا حکم فرمایا کرتی تھیں (۱۳)
عجوہ کی یہ خصوصیت دائمی ہے
حافظ ابن حجر عسقلانی فرماتے ہیں کہ عجوہ کی یہ خصوصیات صرف زمانہ مبارک نبویہ کے ساتھ ہی مقید نہیں‘ بلکہ عمومی اور دوامی ہیں (۱۴)
قلب کے مرض کی شفا عجوہ کے ذریعہ
”عن سعد قال مرضت مرضاً اتانی النبی ا یعودنی فوضع یدہ بین ثدیی حتی وجدت بردہا فی فؤادی وقال انک رجل مفئود ائت الحارث بن کلدة اخا ثقیف فانہ رجل یتطبب فلیاخذ سبع تمرات من عجوة المدینة فلیجأ ہن بنواہن ثم لیلدک بہن“۔ (۱۵)
ترجمہ:․․․”حضرت سعد فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں شدید بیمار ہوا‘ آپ ا میری عیادت کے لئے تشریف لائے اور آپ ا نے اپنا دست مبارک میری چھاتیوں کے درمیان رکھا اور اتنی دیر تک رکھا کہ میں نے اپنے قلب میں آپ ا کے دست مبارک کی خنکی (ٹھنڈک) محسوس کی‘ اس کے بعد آپ ا نے فرمایا: تم کو قلب کی شکایت ہے‘ جاؤ حارث بن کلدہ کے پاس جاکر اپنا علاج کراؤ جو بنو ثقیف کا بھائی ہے اور وہ طبیب ہے‘ پس اسے چاہئے کہ مدینہ طیبہ کی سات کھجوریں لے کر اور انہیں ان کی گھٹلیوں سمیت پی لے اور ان کا مالیدہ سا بناکر تمہارے منہ میں ڈالے“۔
عجوہ میں جنون سے شفا ہے
”قال رسول اللہ ا العجوة من الجنة وہی شفاء من الجنة“۔ (۱۶)
ترجمہ:․․․”آپ انے فرمایا: عجوہ جنت سے ہے اور اس میں جنون سے شفا ہے“۔
عجوہ جنت کی کھجور ہے
”عن ابی ہریرہ قال: قال رسول اللّٰہ ا العجوة من الجنة وما فیہا شفاء من السم والکماة من المن وماء ہا شفاء للعین“ ۔ (۱۷)
ترجمہ:․․․”حضرت ابو ہریرہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ا نے فرمایا : عجوہ جنت کی کھجور ہے اور اس میں زہر سے شفاء ہے اور کمأة (کھنبی) (۱۸) من (کی ایک قسم) اور اس کا پانی آنکھ کے لئے شفاء ہے“۔
تشریح:
”عجوہ جنت کی کھجور ہے“ کا مطلب یا تو یہ ہے کہ عجوہ کی اصل جنت سے آئی ہے‘ یا یہ کہ جنت میں جو کھجور ہوگی وہ عجوہ ہے اور یایہ کہ عجوہ ایسی سودمند اور راحت بخش کھجور ہے گویا وہ جنت کا میوہ ہے‘ زیادہ صحیح مطلب پہلا ہی ہے۔
عجوہ جنت کا میوہ ہے
ایک روایت میں ہے کہ ”العجوة من فاکہة الجنة“ یعنی عجوہ جنت کا میوہ ہے‘ ان روایات میں عجوہ کی برکت اور اس کی منفعت میں مبالغہ مقصود ہے کہ عجوہ جنت کا میوہ ہے اور جنت کا کھا نا تعب وتکلیف کو دور کرتا ہے۔ (۲۰)
علامہ ابن قیم جوزی اسی حدیث کو نقل فرماکر تحریر فرماتے ہیں: بعض لوگوں کا خیال ہے کہ اس عجوہ سے مراد مدینہ منورہ کی عجوہ کھجور یں ہیں جو وہاں کی کھجور کی ایک عمدہ قسم ہے‘ حجازی کھجوروں میں سب سے عمدہ اور مفید ترین کھجور ہے‘ یہ کھجور کی اعلیٰ قسم ہے‘ انتہائی لذیذ اور مزیدار ہوتی ہے‘ جسم اور قوت کے لئے موزوں ہے‘ تمام کھجوروں سے زیادہ رس دار لذیذ اور عمدہ ہوتی ہے۔ (۲۱)
زمین پر تین چیزیں جنت کی ہیں
حضرت ابوہریرہ کی روایت میں ہے:
”لیس من الجنة فی الارض شئی الا ثلاثة اشیاء: غرس العجوة‘ والحجر‘ واواق تنزل فی الفرات کل یوم برکة من الجنة“۔ (۲۲)
ترجمہ:․․․”زمین پر جنت کی چیزوں میں سے تین چیزوں کے علاوہ کچھ نہیں: ۱:․․․عجوہ کھجور کا پودا (درخت) ۲:․․․ حجر اسود‘ ۳:․․․ اور وہ برکت کی مقدار کثیر جو روزانہ جنت سے دریائے فرات پر اترتی ہے“۔
عجوہ جنت کا میوہ ہے‘ اس کے متعلق مختلف روایتیں ہیں‘ ایک روایت میں ”العجوة من فاکہة الجنة“ (۲۳) عجوہ جنت کا میوہ ہے‘ ایک روایت میں ہے: ”العجوة والصخرة والشجرة من الجنة اور (بیت المقدس کا) پتھر (چٹان) (۲۴) اور (بیعت رضوان والا) درخت جنت سے ہیں۔
علامہ عبد الرؤف مناوی اس حدیث کی شرح میں فرماتے ہیں:
”یہ عجوہ شکل وصورت ونام میں جنت کے عجوہ کے مشابہ ہے‘ لذت اور مزہ میں مشابہ نہیں‘ اس لئے کہ جنت کا کھانا دنیوی طعام کے مشابہ نہیں ۔ “(۲۵)
عجوہ آپ ا کو محبوب تھی